سلیمان شاہ کون تھے اور انکی خدمات کیا ہیں

 سلیمان شاہ کون تھے اور انکی خدمات کیا ہیں


تیرہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں شاہان خوارزم کی قوت اپنے زوروں پر تھی وہ ایران خراسان شام اور عراق میں سلجوقیوں کے کی مقبوضات پر قابض ہو چکے تھے ان کا منصوبہ ایشیا کی تمام اسلامی سلطنتوں کو فتح کرنا تھا 

لیکن عین وقت پر جب کہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے تیار تھے جو چنگیز خانی طوفان نے ان کی شاہی سلطنت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور ان کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے

 اس سلطنت کی تباہی کے بعد تمام ترک قبائل جنوب کی طرف بھاگے ان میں سے ایران اور بادشاہ کو پہنچے اور وہاں اقتدار حاصل کیا

سلیمان شاہ غازی ارطغرل کے والد کی تاریخ

 جو ترکمانی کہلائے ان میں سے بعض ایشیاۓ کوچک میں سلجوقیوں سے آ ملے انہیں ترک قبائل میں اپنا وطن چھوڑ کر مارے مارے پھرنے والے عثمانی ترکوں کے آباواجداد قبیلہ بھی تھا جو کہ اغوز قبیلے کا ہی ایک حصہ تھا

 یہ قبیلہ بڑا اور طاقتور تھا اس قبیلےکا نام  قائی قبیلہ تھا اور اس قبیلے کے سردار کا نام سلیمان شاہ تھا ایک روایت کے مطابق یہ خراسان کے شہر ماہان میں آباد ہوا لیکن  منگولوں کے حملوں کےباعث یہاں سے نکل کر مغرب کی جانب ہجرت کی دوستوں سلیمان شاہ کے چار بیٹے تھےسنگورتیکن گندوگدو ارطغرل اور دندار


Pak Turk Media Forum



جبکہ سلیمان شاہ سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ کے پہلے حکمران اور اس کی بنیاد رکھنے والے غازی عثمان خان اول کے دادا تھے جن کا تعلق اغوز سے تھا دوستوں سلیمان شاہ تیرہویں صدی عیسوی میں ہجرت کر کے ایران آئے

 اور وہاں سے اپنے قبیلے کے ساتھ اناطولیا یعنی موجودہ ترکی کی جانب روانہ ہوئے یہاں اس وقت سلجوق سلطنت قائم تھی سلیمان شاہ منگولوں کے دشمن ملک میں پناہ لینے کے خواہشمند تھے

 کیونکہ ان کے خیال میں یہاں پناہ لینا انکے قبیلے کے لیے انتہائی مناسب تھا سلیمان شاہ مشرقی اناطولیہ کے شہراپنے پہنچے وہ خود اور ان کے قبیلے والے اپنے اعلی اوصاف میں مشہور تھے

احلت کے حکمران سے بھی ان کے اچھے تعلقات تھے لیکن جب یہاں منگولوں کی جانب سے خطرہ ہوا تو یہ علاقہ چھوڑ کر آگے بڑھ گئے احلت میں قیام کے دوران سلیم انشاء اور اس کے قبیلہ والوں نے بہت نام پیدا کیا لیکن خوارزم شاہ کا حامی اور مددگار ہونے کی وجہ سے انہیں منگولوں سے مسلسل خطرہ تھا

 اس لئے آپ نے قبیلہ والوں کے ساتھ بار 221 میں احلت چھوڑنا پڑا جس زمانے میں سلیمان شاہ اور ان کے آدمی اناطولیہ کے شہر احلت میں مقیم تھے تو اس دوران انہوں نے چند نمایاں کام کئے یعنی سے اول احلت میں امن وامان قائم کیا اور شمال کے مسیحی یعنی صلیبی دہشت پسند گروہ احلت کے علاقے میں آ کر لوٹ مار کرتے تھے

 سلیمان شاہ اور ان کے ساتھیوں نے ان کا خاتمہ کیا اس کے ساتھ شمال کی بازنطینی سلطنت سے بھی جس کا مرکز صرف ترک زون تھا ان سے ٹکر لی اور انہیں پسپا کیا دوستوں بعض مورخین کے خیال میں اس دوران میں سلجوقی سلطنت کی مدد بھی کی  احلت کے بعد سلیمان شاہ نے اپنے آدمیوں کے ساتھ شام کے مشہور شہر حلب کی جانب ہجرت کی

 جہاں اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے العزیز کی حکومت تھی تھوڑا ہی عرصہ یہاں قیام کیا لیکن ابھی سفر ہجرت جاری تھا کہ سلیمان شاہ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے کہا جاتا ہے کہ یہ دریائے فرات تھا بعض کابیان ہے کہ وہ دریا میں غسل کرتے ہوئے ڈوبے جبکہ چند مورخین کا خیال ہے کہ وہ دوران سفر دریا عبور کرتے وقت ڈوب گئے

 ان کی لاش کو وہیں دفن کر دیا گیا اور ان کا مزار ترک مزاری یعنی ترک مزار کہلاتا ہے بے شمار ترک ان کے مزار کی آج بھی زیارت کرتے ہیں دوستو جغرافیائی طور پر ترک مزاری 2015 تک شام میں واقع تھا 


اور تب تک معاہدہ لوزان کے تحت ترکی کو ان کے مزار پر پرچم نصب کرنے اور اعزازی گارڈ تعینات کرنے کی اجازت تھی جبکہ شام میں خانہ جنگی اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی وجہ سے اس مزار کو اب ترکی کے اندر منتقل کر دیا گیا ہے

 کیونکہ خطرہ تھا کہ اس پر حملہ  دولت اسلامیہ نہ کر دے گی جس کی وجہ سے ترکی کو مجبور ہونا پڑے گا کہ وہ فوجی کاروائی کرے اسی وجہ سے اس سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھایا یہ مزار اس سے پہلے انیس سو ستر کی دہائی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا چکا ہے


 دوستو سلیمان شاہ نے اپنے  بیٹوں کی بہت اچھی تربیت کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ سلیمان شاہ کے تیسرے بیٹے ارطغرل غازی  عالم میں  اسلام خوب نام کمایا اور ایک نئی مسلمان سلطنت کے قیام کی جدوجہد کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی ارطغرل غازی اپنی زندگی میں ایک اسلامی ریاست قائم نہ کرسکے

 تو ان کا یہ خواب ان کے سب سے چھوٹے بیٹے غازی عثمان خان اول نے 1199 میں پورا کیا اگر آپ کویہ کالم پڑھ کر معلومات ملی 

تو اسے اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں مزید اسی طرح کی معلومات کیلئے بلاگ کو فالو کر لیں شکریہ


Post a Comment

0 Comments