صلاح الدین ایوبی کون تھے

 سلطان صلاح الدین ایوبی کا اپنا نام صلاح الدین یوسف بن ایوب تھا یوں تو سلطان صلاح الدین ایوبی پیدائش حکمران نہیں تھے بلکہ ان کے چچا شرکوں نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ کے کمانڈر تھے اس حیثیت میں وہ اپنے بھتیجے کو ہر جنگ میں ساتھ لے جاتے تھے دوستوں شرک نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ عظیم ہستی ہے

 جن کو حضور پاک صلی اللہ وسلم کی زیارت تین مرتبہ نصیب ہوئی ہے دانش صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت کے بانی تھے وہ نہ صرف اسلام بلکہ عالم کے مشہور ترین خواتین میں سے ایک ہیں گیارہ سو انتیس میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر شام یمن عراق حجاز پر حکومت کی صلاح الدین ایوبی کو بہادری فیاضی حسن حلف سخاوت کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے

 انہیں فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے 

انہوں نے گیارہ سو سے میور کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروایا تھا وہ مسلمانوں کا عظیم سلطان اور عالم اسلام کا بینظیر فرزند تھا جب وہ سلطان بنا تو شام اور مصر کے راستے میں خرچ نام کے ایک علاقے پر ایک عیسائی رونا میں حکمران تھا گر کا یہ حکمران خلاف معاہدہ حرکتیں کرنے کے لیے بڑا بننا تھا


 ہم سے مصر یا شام سے مکہ معظمہ آنے جانے والے قافلوں یا حاجیوں کے پرامن کاروانوں کو لوٹنے میں اسے بڑا مزہ آتا تھا سو نواسی میں جب کا دور تھا مسلمانوں کا ایک قافلہ اس کے قلعہ کے پاس سے گزرا اور قریب ایک بڑے میدان میں اتری نہ سے خیمہ زن ہوا اس لیے کہ وہ 216 کا تھا لیکن اس ظالم نصرانی حکمران نے اس کے ہر فرد اور معاشرے کو پکڑ لیا اور بولا طلائی دینار کا سامان ضبط کرلیا ان دنوں بیت المقدس کا عیسائی حکمران بالڈون تھا


 اس نے کرکٹ کے حکمران کے خلاف احتجاج کیا اور اپنے ایک معاہدہ بھی جا تاکہ مسلمکا چھینا ہوا سامان واپس کر دے
ور مسلمانوں کی دھوپ آزاد کر دیں لیکن دونوں مقاصد کی بھی توہین کی اور کہاں ماننے سے انکار کر دیا اس کے گیارہ سو تراسی میں اس نے ایسی ہی ایک حرکت کی اس نے صلح کے زمانے میں ایک لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جسارت کی اس کے بعد تیسرا واقعہ پیش آیا یا سوچ ایسی میں جبکہ مسلمانوں اور مسکرانے کے درمیان امن کا معاہدہ تھے وہ چکا تھا اور شام اور مصر کے درمیان مقابلہ آزادی سے سفر کرنے لگے تھے


 اس حکمران نے تاجروں کی ایک جماعت پر یک جب تھا اور ان کا بہت سا سامان لوٹ لیا ہیں اس قافلے میں مسلمانوں کے سلطان کی ایک بہن بھی سفر کر رہی تھیں قافلے کو تو لوٹ لیا گیا مگر سلطان بہن کسی طرح اپنی جان بچا کر سلطان سے جاملیں اور قافلے پر ہونے والے ظلم کا حال بیان کیا یہ سب سن کر سلطان آگ بگولہ ہوگئے اور انہوں نے قسم کھائی 

کہ وہ نور کو اپنے آٹو سے قتل کریں گے اپنے تمام اتحادیوں کو خط بھیجنے شروع کر دئیے اور انہیں ان کی مدد کو آ پہنچے کیونکہ اب صلیبیوں کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے چنانچہ مسلمان ممالک سے بڑی تعداد میں فوج دمشق پہنچنے لگی جسے سلطان نے اس وقت اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا کی طرف روانہ ہوئے نے بھی سلطان کے خلاف بڑی فوجیں تیار کر رکھی تھی صلیبی فوج اس خوش فہمی میں تھے کہ انہیں جنگ میں کوئی نہیں آرہا سکتا تھا

صلاح الدین ایوبی کون تھے
صلاح الدین ایوبی کون تھے


 اس کی وجہ تھی یعنی صلیبی اعظم صلیبی فوج کبھی اعظم کو بیس بار جنگ کے میدان میں لے جا چکے تھے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ہر بار جیت ان کے قدم چومتی تھی لہذا صلیبی فوج نے راستے میں ہر آنے والے رکاوٹ کو ترک کردیا کیوں کہ یہ ان کی سب سے بڑی بیوقوفی تھی یہ فوج جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی ان کا بھوک اور پیاس سے برا حال تھا میں کار 4 جولائی 11 سو ستاسی کو سلطان نے صلیبیوں 


زہریلے تیروں سے صلیبیوں کا کافی نقصان ہوا ہے بھی فوج مکمل طور پر یہ جنگ ہار چکی تھیں اور علاقہ سلطان کے قبضے میں ہو چکا تھا سلطان نے ان کو اسلام کی دعوت دی لیکن اُن کی طرف سے جواب نا  کا ہی آیا لہذا سلطان نے اپنے کھائے ہوئے قسم کو پورا کرتے ہوئے ان کا سر قلم کر دیا بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں موجود صلیبی فوجوں میں بھی سب رنگ کا ڈٹ کے مقابلہ کیا دونوں لشکروں کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا

 اور آخرکار سلطان صلیبیوں کو غالب ہوتے ہیں لیکن سلطان نے یہاں بھی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صلیبی لوگوں کو حکم دیا کہ عیسائی مرد نار عورت پانچ ہزار ادا کرے اور آزاد ہو جائے اور جو ادا نہ کر سکے انھیں غلام بنا دیا جائے گا لیکن سلطان کار ہم یہاں بھی سلطان کو لڑکا جگہ اور سلطان نے ان غریب لوگوں کو مفت آزادیبخش دی جن کے پاس رقم ادا کرنے کے پیسے نہیں تھے کچھ عیسائی تو سلطان کی اس رحم دلی سے متاثر ہو کر گئے

صلاح الدین ایوبی کون تھے


 سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی رحمتیں اور حسن سلوک کا ویسٹ بھی احترام کرتا ہے اور یوں بیت المقدس  85 برس بعد مسلمانوں کے قبضے میں چلا گیا اس کے سلطان کی جنگ ایک اور عیسائی بادشاہ پکچر نامی شخص سے ہوئی اور کئی عرصے بعد ان کے درمیان صورتیں پایا یوں تو سلطان کو حج کرنے کی بڑی تمنا تھی لیکن اپنی مصروفیت کی وجہ سے حج نہیں کر سکے تھے سلطان اپنی زندگی میں خوش تو ادا نہ کرسکے لیکن ح سے آنے والے کافروں کا جنگ استقبال کیا کرتے تھے ایک دن سلطان بیمار ہوتے ہیں

 اور بیماری اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ سلطان کے بستر کے چاروں اطراف حافظ قرآن کا گہرا ہوتا اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے ہیں آخر 4 مارچ 1993 کی سلطان کی آنکھ کھلی اور وہ اپنے لبوں کو ایسے ہلا رہے تھے کہ جیسے کچھ پڑھ رہے ہو اور اس کے بعد ان کی روح پرواز کر جاتی ہے سلطان صلاح الدین ایوبی جو آپ نے وفات کے وقت میری شام فلسطین مصر اور بے شمار دیگر اور دوسرے زرخیز مردم خیز علاقوں کا حکمران اور مالک تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی فوت ہوئے تو ان کے پاس کل ایک دینار اور درہم نکلے

 اس کے علاوہ ان کے پاس کسی قسم کا مالی حاملہ کیا نقد و جنس نہ تھا اس لئے جو کچھ نہیں ملتا تھا وہ راہ خدا میں اپنا سب کچھ خرچ کردیتے اور اللہ تعالی ٹوکل پر زندگی بسر کرتے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کے لئے بہترین زندگی بسر کرنے کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا تو دوستو یہ تھی مسلمانوں کے عظیم لیڈر سلطان صلاح الدین ایوبی

Post a Comment

0 Comments