سلجوق کا عروج سیزن 2 پرومو

 *❂•🇵🇰┅❂❀﷽❀❂┈🇵🇰•❂*

*💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚*

╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔ *#عہــدِ_خـلافـت_عـثـمـانـی_رضی_اللّٰهُ_عنہ*

╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚


 


   *🔲⭐قـســــــط نمــــــــبر /07⭐🔲*


 *💕#مصنف_مولانا_اکبر_شاہ_نجیب_آبادی💕*


*⬛🌟#تاریخ_اسلام جلد_نمبر01🌟⬛* 


*🌳#تحریر.ترتیب و تدوین بندہ حقیر 🌳*


*🇵🇰✨#Sultan_Khurram_Chishti✨🇵🇰*


*🌹#حـضرت_عـثمــان_غــنی_رضــی_اللّٰــه_عــنــه🌹*

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ



  


*💞#۳۱ھ_کے_واقعات💞*


 


*دربار خلافت سے جو احکام جاری ہوئے، ان کے موافق ہرم بن حسان یشکری، ہرم بن حیان العندی،  حرث بن راشد بلاد فارس کے اضلاع میں، احنف بن قیس خراسان میں اور حبیب بن قرہ مرو میں خالد بن عبداللہ بلخ میں، قیس بن ہبیرہ طوس میں عامل مقرر ہوئے۔ خراسان کے کئی شہروں میں بغاوت نمودار ہوئی، عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فوج کشی کر کے تمام بغاوتوں کو فرو کیا پھر نیشاپور پر چڑھائی کر کے وہاں کے سرکشوں کو درست کیا، نیشا پور سے فارغ ہو کر سیدنا عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر سرخس کی طرف روانہ کیا اور ایک جمعیت لے کر خود ہرات کی جانب گئے، ہرات کو فتح کر کے بلخ و طبرستان کی بغاوتوں کو فرو کیا، اس کے بعد کرمان سبحستان اور فارس کے صوبوں میں جا کر وہاں کے تمام سرکشوں کو مطیع و منقاد کیا، اس طرح تمام بلاد ایران و عراق میں عبداللہ بن عامر کی دھاک بیٹھ گئی اور لوگ ان کے نام سے خوف کھانے لگے۔*


*🔥#یزدجرد_کی_ہلاکت:🔥* 


*ایرانی سلطنت تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کے عہد خلافت میں برباد ہو چکی تھی، سلطنت کے بعض سرحدی صوبے یا بعض شہر جو باقی تھے وہ خلافت عثمانی میں مسخر ہو گئے تھے، لیکن یزد جرد شاہ فارس کی حالت یہ تھی کہ کبھی رے میں ہے، کبھی بلخ میں، کبھی مرو میں ہے تو کبھی اصفہان میں، کبھی اصطخر میں ہے تو کبھی جیحون کو عبور کر کے ترکستان میں چلا گیا ہے، کبھی چین میں ہے، کبھی پھر فارس کے اضلاع میں آ گیا ہے، غرض اس کے ساتھ کئی ہزار ایرانیوں کی جمعیت تھی اور وہ اپنی خاندانی عظمت اور ساسانی اقتدار و بزرگی کی بدولت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور لوگ بھی اس توقع میں ہے کہ شاید اس کا ستارہ اقبال پھر طلوع ہو، اس کے ساتھ ہو جاتے تھے، یہی سب سے بڑی وجہ تھی کہ ایران کے اکثر صوبوں، ضلعوں اور شہروں میں کئی کئی مرتبہ بغاوت ہوئی اور مسلمان سرداروں نے اس کو بار بار فرو کیا۔*


*اس مرتبہ یعنی ۳۱ ھ میں یزد جرد چین و ترکستان کی طرف سے ایک جمعیت کے ساتھ نواح بلخ میں آیا، یہاں اس نے بعض شہروں پر چند روز قبضہ حاصل کر لیا، لیکن اس کے اقبال کی نحوست نے اس کو وہاں سے ناکام فرار ہونے اور مسلمانوں کی قید میں پڑنے کے ڈر سے بھاگ کر ایک پن چکی والے کی پناہ میں جانے پر مجبور کیا، پن چکی والے نے اس کے قیمتی لباس کے لالچ میں جب کہ وہ سو رہا تھا قتل کر دیا اور لباس و زیور اور ہتھیار وغیرہ اتار کر اس کی لاش کو پانی میں ڈال دیا،  یہ واقعہ نواح مرو میں مقام مرغاب کے متصل ۲۳ اگست ۶۵۱ء کو وقوع پذیر ہوا۔*


*یزد جرد کے چار سال تو عیش و عشرت کی حالت میں گزرے، سولہ برس تباہی اور آوارگی کے عالم میں بسر ہوئے، ان سولہ برس میں آخری دس سال مفروری کے عالم میں گزرے، اس کے بعد ایرانی فتنے سب فرو ہو گئے۔*



*اسی سال محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ اور محمد بن ابی بکر نے جو مصر میں والی مصر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے پاس مقیم تھے، عبداللہ بن سعد سے مخالفت و ناخوشی کا اظہار کیا۔عبداللہ بن سعد کے ساتھ ان دونوں بزرگوں کی ناخوشی بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ انہوں نے اعلانیہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اعتراض و طعن کیا کہ انہوں نے عبداللہ بن سعد جیسے شخصوں کو جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ناخوش رہے، صوبوں کا گورنر بنا رکھا ہے اور ان کی زیادتیاں اور مظالم دیکھ کر بھی معزول نہیں کرتے۔*


*💞#۳۱ھ_کے_واقعات:💞*


*۳۱ ھ کے ماہ ذی الحجہ میں جب عبداللہ بن عامر حج بیت اللہ کے لیے خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے تو ملک ایران کے ایک ایرانی سردار مسمیٰ قارن نے ملک کے مختلف صوبوں سے چالیس ہزار کا ایک لشکر جمع کر کے ایران کے صوبوں پر قبضہ کر لینے کا مناسب موقع پایا، قارن کی اس شرارت و دلیری کے مقابلہ میں عبداللہ بن حازم ایک سردار نے صرف چند ہزار مسلمانوں کی جمعیت سے وہ کار نمایاں کیا کہ ایرانیوں کو سخت ترین ذلت و نامرادی کے ساتھ شکست کھانی پڑی۔*


*عبداللہ بن حازم اپنی تین چار ہزار کی جمعیت کو لے کر ایرانیوں کے چالیس ہزار لشکر کی طرف روانہ ہوئے، قریب پہنچ کر انہوں نے مجاہدین کو حکم دیا کہ اپنے اپنے نیزوں پر کپڑا لپیٹ دیں اور کپڑے تیل یا چربی سے تر کر لیں، جب لشکر قارن کے قریب پہنچا تو شام ہو کر رات ہو چکی تھی، عبداللہ بن حازم نے حکم دیا کہ تمام نیزوں کے کپڑوں کو آگ لگا دیں اور دشمن پر حملہ آور ہوں، اس اچانک حملہ آوری اور ان مشعلوں کی روشنی کو دیکھ کر ایرانی حواس باختہ ہو کر بھاگے اور کسی کو مقابلہ کرنے کا ہوش نہ رہا،مسلمانوں نے بہتوں کو قتل اور بہتوں کو گرفتار کیا، بہت سے اپنی جان بچا کر لے گئے اور بچ کر نکل گئے، عبداللہ بن عامر حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ سیدنا عثمان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے۔*


*بعض روایات کے بموجب سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے ۷۵ برس کی عمر میں اس سال یعنی ۳۲ ھ میں وفات پائی اور بہت سی دولت اور اولاد چھوڑی۔*


*💞#۳۲ھ_کے_واقعات:💞* 


*ولید بن عقبہ کی معزولی کے بعد کوفہ کی گورنری پر سعید بن العاص مقرر ہوئے تھے، جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، سعد بن العاص رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں پہنچ کر اہل کوفہ کی دل جوئی اور مدارات میں کوئی کوتاہی نہ کی، مالک بن حارث نخعی جو مالک بن اشتر کے نام سے مشہور ہے، ثابت بن قیس ہمدانی، اسود بن یزید، علقمہ بن قیس، جندب بن زہیر، جندب بن کعبہ ازدی، عروہ بن الجعد، عمروبن الحمق خزاعی، صعصعہ وزید پسران سوحان بن عبدی، کمیل بن زیاد وغیرہم، سب سعید بن العاص کی صحبت میں آ کر بیٹھتے اور بے تکلفانہ باتیں کرتے، کبھی ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہو جاتیں۔*


*ایک روز سعید بن العاص گورنر کوفہ کی زبان سے نکلا کہ یہ علاقہ تو قریش کا باغ ہے، یہ سن کر مالک اشتر نے فوراً غصہ کے لہجہ میں کہا کہ جس علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کے زور سے فتح کیا ہے تم اس کو اپنی قوم کا بستان خیال کرتے ہو، ساتھ ہی دوسرے لوگوں نے بھی اس قسم کی باتیں شروع کیں، شور و غل بلند ہوا تو عبدالرحمن اسدی نے لوگوں کو شورو غل مچانے سے منع کیا،  اس پر سب نے مل کر عبدالرحمن کو مارا اور اس قدر زد وکوب کیا کہ بیچارہ بیہوش ہو گیا، اس واقعہ کے بعد سعید بن العاص نے رات کی صحبت موقوف کر کے دربان مقرر کر دئیے کہ لوگوں کو آنے سے باز رکھیں، اس رات کی روزانہ مجلس کے برخاست ہونے کا لوگوں کو بہت ملال ہوا اور اب عام طور پر جہاں دو چار آدمی مل کر بیٹھتے یا کھڑے ہوتے سعید بن العاص کی اور ان کے ساتھ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بھی شکایات زبان پر لاتے، ان شکایت کرنے والوں کے گرد اور بہت سے بازاری آدمی جمع ہو جاتے۔*


*رفتہ رفتہ یہ سلسلہ طویل ہوا اور فتنہ بڑھنے لگا تو سعید بن العاص نے یہ تمام روئیداد سیدنا عثمان غنیؓ کی خدمت میں لکھ کر بھیج دی، عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواباً سعید بن العاصؓ کو لکھا کہ ان لوگوں کو کوفہ سے شام کی طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دو، چنانچہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے سب کو شام کی طرف روانہ کر دیا، وہاں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی خوب خاطر مدارت کی، ان کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھاتے اور سب کا روزینہ بھی مقرر کر دیا۔*


*بات یہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا تھا کہ چند سرکش لوگوں کی ایک جماعت تمہاری طرف بھجوائی جاتی ہے تم کوشش کرو کہ وہ راہ راست پر آ جائیں، اسی لیے امیر معاویہ نے ان لوگوں کے ساتھ نہایت محبت و ہمدردی کا برتاؤ کیا، چند روز کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ قریش کی سیادت کو تسلیم کریں اور مسلمانوں کے باہمی اتفاق کو درہم برہم نہ ہونے دیں، لیکن صعصہ بن صوحان نے امیر معاویہؓ کی نہایت معقول اور ہمدردانہ باتوں کا بہت ہی غیر معقول اور سراسر نادرست جواب دیا اور اپنی ضد پر اڑا رہا، مجبوراً امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ یہ لوگ راہ راست پر آنے والے نظر نہیں آتے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ ان لوگوں کو حمص کی جانب عبدالرحمن بن خالد کے پاس بھیج دو، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حمص کی جانب روانہ کر دیا، عبدالرحمن بن خالد والیٔ حمص نے ان کے ساتھ ان کے حسب حال سختی و درشتی کا برتاؤ کیا، حتی کہ اپنی مجلس میں ان کو بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں دی، چند روز کے بعد یہ لوگ سیدھے ہو گئے اور اپنی سابقہ سرکشی کی حرکات پر اظہار افسوس کیا، عبدالرحمن بن خالد نے اس کی اطلاع دربار خلافت کو لکھ کر بھیجی، وہاں سے اجازت آ گئی کہ اگر یہ لوگ اب کوفہ کی طرف جانا چاہیں تو جانے دو۔*



==================>  ۔۔۔ 

*🌹 بقیہ قسط نمبر/08 میں پڑھیں #اِنُ_شَاءَاللّٰه*

==================>  ۔۔۔



*؎ خَاْڪپَاْۓَْ سـِـــلْسِـــــلہ چِـــــــشْـــــتِـــــیَہ شَـــاذْلِــــیَہ*

 *رَضَؔآْرُوْمِیْٓؔ وَاِقْبَؔاْلٓ نَــــصِیْـــرْوِیْ عَلَیْھُمُ رّحْمَةُ الرّحْمٰن*






*⬛✨#جاری_ہے_اِنُ_شَاءَاللّٰه✨⬛*


Post a Comment

0 Comments